کبھی الوداع نہ کہنا
ریڈ ڈاٹ ۔۔۔ دنیا کے نقشے پر سنگاپور ایک چھوٹا سا ریڈ ڈاٹ ہی تو ہے مگر
یہاں کے مکینوں کے لیے یہ چھوٹا سا ریڈ ڈاٹ آج کی خونریز دنیا میں امن کے گہوارے سے کم نہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ تین سال قبل اپنے شوہر اور تین بچوں کے ہمراه جب میں نے اس سر زمین پر پڑاوْ ڈالا تو یہاں رہنے والوں نے کھلے دل اور کھلی بانہوں سے ہمارا استقبال کیا تھا۔ آج ساڑھے تین سال بعد میں فخر سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ سنگاپور نے نہ صرف ہمیں بہترین انداز میں قبول کیا بلکہ اپنی زندگی کے بہترین دوستوں سے بھی میرا تعرف اسی خطے پر ہوا۔ سنگاپور ایکس پیٹ لیونگ کا ایک بہترین نمونہ ہے اور یہ جملہ میں ایکس پیٹ لیونگ میگزین پڑھ کر نہیں کہی رہی بلکہ یہ میرے تین سالہ تجربے کا نچوڑ ہے۔
بیرون ملک رہنے والوں کی زندگیاں ایک سے زیاده طور پر متہشابہ ہوتی ہیں اور اس بات کا انداذه مجھے سنگاپور میں رہنے کے بعد ہوا۔ یقین کیجیئے یہاں رہنے والوں کی خوشیاں اور ان کے مسائل کا دائره کم و بیش ایک ہی نوعیت کا ہے۔ مرد حضرات کے مشاغل میں گالف کھیلنا، بیرون ملک بیٹھ کر اندرون ملک سیاست پر بحث کرنا یا پھر محفل میں اپنے انٹرنیشنل ٹریول کے قصے بیان کرنا ہے اور خواتین کا تو کیا ہی کہنا، ان کی مصروفیت کافی مارنگ سے شروع ہوتی ہے تو خدمت خلق کے عظیم جذبے کی تسکین کے سلسلے میں کی گئ تھیم پارٹیز پر اختتام پزیر ہوتی ہے اور ان کے بیچ میں یوگا، تاش کی بازیاں اور بک گروپ پسندیده ایکٹویٹیز ثابت هوتی ہیں۔ ایک اور بیماری جو میں نے بیرون ملک رہنے والوں میں کثرت سے دیکھی ہے وه سب سے منفرداور جدا نظرآنے کی تمناہے۔ ہر کوئی ہر وقت اسی تمنا کا شکار نظرآتا ہے۔
خیر میری آج کی لکھائی کا موضوع سنگاپور جیسی جگہ پر رہنے والوں کے ایک اور اہم مسئلے پر مبنی ہے۔ میں ٹھیک سے یہ کہہ نہیں سکتی کہ یہ سب لوگوں کے لیے مسئلہ ہے بھی یا نہیں کیونکہ کچھ لوگ اس کو خوشکن تبدیلی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ جی ہاں آپ بالکل درست سمجھے یہ مسئلہ سنگاپور میں لوگوں کی مستقل آمدورفت کا سلسلہ ہے۔ سنگاپور کی آبادی کا بڑا حصہ یہاں پر عارضی طور پر مکین ہے اور دو، چار، چھ یا حد آٹھ سال گزارنے کے بعد یہاں سے پر تولتا ہوا نئی منزل کی تلاش میں نکل جاتاہے۔ یوں تو تبدلی زندگی کا حصہ ہے مگر تبدلی ہماری زندگی پر گہرے اور دور رس نتائج بھی چھوڑتی ہے اور یہ نتائج ہمیشہ مثبت نہیں ہوتے۔ خاص کر ہمارے جیسے دل سے سوچنے والوں اور پل دو پل میں محبت اور دوستی کےاٹوٹ بندھن قائم کر لینے والوں کے لیے یہ مرحلہ نہایت غمناک اور اندرونی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ ثابت ہوتا ہے۔
اس تبدیلی، اندرونی ٹوٹ پھوٹ اور غم کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وه اس نئی منزل کے مسافروں کی الوداعی دعوتوں کاسلسلہ ہے۔ جیسے ہی کسی خاندان کی رخصتی کا اعلان ہوتا ہے تو ان کی سماجی حیثیت اور پاپولیریٹی کو مد نظر رکھتے ہوتے کھٹاکھٹ دعوت کی تاریخوں کی بکنگ شروع هو جاتی ہے۔ ایک دفع دن کا تعین ہو جائے تو اس کے بعد کی سرکس قابل دید ہوتی ہے ۔ آج میں آپ کو ایسی ہی چند تقاریب میں لے کر چلتی ہوں۔
“ہیلو کون طاہره؟ بھئی کب سے تمہیں فون کر رہی ہوں، اب جلدی سے میرا یہ مسئلہ حل کرو۔ دیکھو میں سونیا کی فئیر ویل پلان کر رہی ہوں اور مجھے تمہاری مدد کی سخت ضرورت ہے۔آج شام تک مجھے واٹ سیپ گروپ بنا کر انویٹیشن بھیجنا ہے اور ابھی تک کوئی تھیم سمجھ میں نہیں آ رہی۔ دیکھو ایسی تھیم بتانا جو پہلے کسی نے نہ کی ہو۔” اب آپ خود ہی اندازه لگائیے کہ جس گفتگو کا آغاز یہ ہے تو اس کے انجام تک کن مراحل سے گزرنا ہو گا۔
یہ تھیم تو ایسی ہماری جڑوں میں بیٹھی ہے کہ اس زمین پر جس تھیم کا خدا نے ہمارے لیے انتخاب کیا تھا اس کے علاوه ہم ہر تھیم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور لوگوں سے منفرد نظر آنے کا بھی جو معیار ہمارا مذہب ہمیں بتاتا ہے ہم اس سے کوسوں دور ہیں۔ خیرآرچرڈ روڈ پر اسٹار بکس میں بیٹھی پنج رکنی کمیٹی نے عرب کاسٹیوم تھیم کا انتخاب کیا۔ یہ چیز میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ اتنا پڑھ لکھنے کے باوجودہم عرب بددو’ں کی طرح کیوں دکھنا چاہتے ہیں اور ان کی نام نہاد تہذیب سے اتنے متاثر کیوں ہیں۔ خیر اس بے کار کے فلسفے کو چھوڑئیے اور میرے ساتھ چل کر دیکھئیے کے انسان سے عرب بننے کی کوشش میں کیا تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس تھیم پارٹی کا سب سے زیاده فائده عرب اسٹریٹ کے دکانداروں کو ہو رہا تھا کیونکہ خواتین دھڑا دھڑ عرب اسٹریٹ سے عربی چوغے اسکارف اور مختلف قسم کی عرب سوغاتیں خرید رہی تھیں ۔ کھانے کا سارا مینیو بھی عربی ہی تھا۔ ہال میں جگہ جگہ پر فرشی بیٹھکیں سجی ہوئی تھیں ۔بڑے بڑے شیشوں کے شمع دانوں سے روشنی چھن چھن کر آ رہی تھی۔ بہرے ٹرے در ٹرے حمس اور مطبل مہمانوں کو پیش کر رہے تھے۔ دف اور ڈھول پر مبنی عربی موسیقی ماحول کو سریلا بنا رہی تھی۔اودھ کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور خواتین کا عربی اسٹائیل میک اپ تو یقیننا قابل دید تھا لیکن سب سے زیاده مزحقا خیز منظر ان عربی خواتین کے مغربی لباس میں ساوتھ ایشیائی شوہر تھے جو کہ عربی تھیم کو رائج کرنے میں قطعا ناکام رہے تھے-
یہ تو تھی عربی تھیم اور اب لیجیئے ساڑھی پارٹی، چنری تھیم، کریزی وگ پارٹی اور اسی قماش کی بہت سی دوسری پارٹیز۔ ان سب الودائی تقریبات کا ایک اہم جز سرپرائیز کا عنصر ہے اور ہماری اگلی پارٹی اسی عنصر کے ارد گرد گھومتی ہے۔
میزبان نے جن چیزوں کا اعلان کیا تھا ان میں لیس کے پیراہن اور موتیوں کے زیور تھے اور جن کو پوشیده رکھا گیا تھا وه ایک سرپرائیز ویڈیو تھی ۔ اب بھلا خود ہی بتائیے اگر ہم اتنے ہی اعلی فنکار ہوتے تو فواد خان اور ماہره کی جگہ فلمیں نہ سائین کر رہے ہوتے لیکن میزبان خاتون کی تو ایک ہی رٹ تھی کے انکی جانے والی دوست کے اعزاز میں وڈیو میسج ریکارڈ کریں تاکہ الودائی تقریب کے دوران یہ وڈیو سرپرائیز کے طور پر چلائی جائے۔ اور زرا سوچئیے کہ جب ناظرین کے سامنے وڈیو چلے گی تو ساری ایکسٹراز کی کاسٹ کی بہترین پرفارمنس کا کیا کیا نہ مذاق اڑے گا۔ خیر ایک دوسرے کی بھیڑ چال میں وڈیو بھی بن گئی مگر میزبان خاتون اس پر بھی نہ رکیں اور اب ان کی توپوں کا رخ اپنی دوست کی نجی زندگی کی طرف تھا خیر فیس بک کی موجودگی میں نجی زندگی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اسٹیٹس اور تصاویر کی مدد سے گھر کی چار دیواری میں رہنے والے جانیں نہ جانیں دینا والے اندر باہر کے حالات ضرور جان لیتے ہیں۔ تو ایک سلائیڈ شو فیس بک سے اتاری گئی تصویروں کا بھی بنا۔ باقی کے انتظامات میں کھانے کی تفصیل اور گھر کی سجاوٹ شامل تھی۔
مذاق کی بات ایک طرف لیکن حقیقت یہی ہے کہ انسان چاہے کتنا ہی کیوں نہ بدل جائے یا ترقی کر لے لیکن بنیادی جذبے پھر بھی احساس اور محبت کی انمول ڈور سے بندھے ہوتے ہیں اور تعلق کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں تو چاہے چوغا عربی ہو یا وگ ولائیتی ، چاہے پاگ تھائی نوڈل پیش کی جائے یا الائیچی خوشبو والا پان، دل کے رشتے دوری کی سوچ سے نہ صرف گھبراتے ہیں بلکہ اس کا اثر اپنی روح پر محسوس کرتے ہیں اور ان زمانوں کا شدت سے انتظار کرتے ہیں جب ہجر کی کالی راتوں کی اووڑ سے وصل کی صبح طلوع ہو۔
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
Really Mehwish what a lovely Urdu. Well done.